مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ معصومہ (س) حضرت امام موسی کاظم کی بیٹی اور حضرت امما رضا (ع) کی بہن ہیں آپ نےاٹھائیس سال کی عمر میں 10 ربیع الثانی سن 201 ہجری قمری قم المقدس میں وفات پائی ۔آپ کا اسم مبارک حضرت فاطمہ اورلقب معصومہ ہے آپ کےوالد گرامی : حضرت امام موسی بن جعفر(ع)اوروالدہ گرامی حضرت نجمہ خاتون ہیں حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام پہلی ذیقعدہ 173 ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں ۔اور آپ نے اٹھائیس سال کی عمر میں 10 ربیع الثانی سن 201 ہجری قمری قم المقدس میں وفات پائی ۔ سن 200 ہجری قمری میں حضرت فاطمہ معصومہ(ع) اپنے کچھ بھائیوں کے ہمراہ اپنے بھائی اور امام زمانہ حضرت امام رضا (ع) کی زیارت کے یئے روانہ ہوئیں ۔ طولانی سفر طے کرتے ہوئے آپ بمقام ساوہ پہنچیں ۔ اس زمانے میں ساوہ کے لوگ اہلبیت (ع) کے سخت مخالف تھے ۔ انھوں نے حکومت کے سپاہیوں سے ملکر حضرت معصومہ(ع) کے قافلہ والوں پر حملہ کردیا اور اس طرح دونوں گروہوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اس درد ناک حادثہ میں حضرت کے قافلہ میں سے کافی لوگ شہید ہو گئے ۔ اس کے بعد حضرت معصومہ (ع) بیمار پڑ گئيں اور ساوہ میں ناامن حالات کو دیکھتے آپ نے فرمایا کہ مجھے قم لے چلو ۔ کیوں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے سنا ہے کہ قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے پھر آپ قم کی طرف روانہ ہوئیں ۔ قم کے بزرگ لوگوں کو جب اس مسرت بخش خبر کی اطلاع ہوئی تو وہ لوگ حضرت معصومہ کے استقبال کے لئے آئے ۔ اور اشعری خاندان کے سردار ( موسی بن خزرج ) نے حضرت معصومہ کے اونٹ کی لگام اپنے ہاتھ میں لی اور بی بی کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ قم میں لائے ۔ اور آپ نے موسی بن خزرج کے مکان میں قیام فرمایا سترہ دن تک آپ نے آشیانہ آل محمد (ص) میں خدا کی عبادت اور اس کے ساتھ راز و نیاز میں گزارے ۔ آخر کار بیماری کی تاب نہ لا کر آپ نے اپنی جان کو جان آفرین کے حوالے کردیا آپ کی بیماری کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ آپ کو ساوہ میں ایک عورت نے مسموم کیا تھا آپ کو غسل و کفن دینے کے بعد قبرستان کی طرف لے گئے دوستداروں کا مجمع تھا لیکن کوئی محرم نہ تھا جو حضرت کے جنازے کو قبر میں اتارتا چنانچہ قادر نامی ایک بوڑھے شخص کو اس کام کے لئے انتخاب کیا لیکن وہ بھی اس کام کو انجام دینے کا اہل نہ تھا کیوں کہ معصومہ کا جنازہ تھا اس کو قبر میں اتارنے کے لئے امام معصوم کی ضرورت ہے ۔ لہذا لوگوں نے انتظار کیا نا گہاں دیکھا کہ دور سے دو سوار آرہے ہیں جب وہ قریب آئے گھوڑے سے اترے نماز جنازہ ادا کی معصومہ بی بی کو سپرد خاک کیا اور کسی سے تکلم کئے بغیر چل دیئے ۔ معصومہ اہلبیت کا روضہ آج ہر خاص و عام کی زیارت گاہ اور دل کی دھڑکن ہے ۔ یہاں حاجت مندوں کی حاجتیں روا ہوتی ہیں اور درد مندوں کو شفا ملتی ہے ۔
آپ کی قبر منور شہر قم میں مشہور و معروف ہے ۔ اس میں بلند قبے ، ضریح ، متعدد صحن اور بہت سے خدام اور بہت سے اوقاف ہیں ۔ اہل علم کی آنکھوں کی روشنی اور عام انسانوں کے لۓ پناہ گاہ ہے ۔ ہر سال بے شمار لوگ دور دور کے شہروں سے سفر کرتے ہیں اور زحمت برداشت کرکے ان معظمہ کی زیارت سے فیض و برکت حاصل کرتے ہیں ۔ ان معظمہ کی فضیلت و جلالت بکثرت حدیثوں سے معلوم ہوتی ہے جیسا کہ شیخ صدوق (رہ) نے حسن سند کے ساتھ جو مثل صحیح کے ہے سعد بن سعد سے روایت کی ہے کہ امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا حضرت فاطمہ (ع) بنت موسی (ع) بنت جعفر (ع) کے بارے میں تو فرمایا جو ان کی زیارت کرے اس کے لۓ بہشت ہے اور معتبر سند کے ساتھ آپ کے فرزند امام محمد تقی علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص میری پھوپھی کی زیارت قم میں کرے اس کے لۓ بہشت ہے ۔ علامہ مجلسی (رہ) نے بعض کتب زیارت سے نقل کیا ہے کہ علی بن ابراہیم نے اپنے والد سے اور انھوں نے سعد سے روایت کی ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا اے سعد تمہارے قریب ایک ہماری قبر ہے ۔ سعد نے کہا کہ میں آپ پر قربان ہوں ۔ قبر فاطمہ (ع) بنت موسی (ع) کو فرمارہے ہیں ، فرمایا ہاں ، جو ان کی زیارت کرے ان کے حق کو پہچانتے ہوۓ اس کے لۓ جنت ہے ۔
آپ کا تبصرہ